سیکیورٹی گارڈ انسٹرکٹرز: شکایات کے غیر متوقع کیسز کو کیسے سنبھالیں؟

webmaster

경비지도사 실무 중 발생한 민원 사례 - **Prompt 1: Community Engagement Security Guard with Children**
    A friendly male security guard, ...

ارے میرے پیارے قارئین! آپ سب کیسے ہیں؟ امید ہے بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں گے۔ مجھے پتا ہے کہ آپ ہمیشہ میری پوسٹس کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، کیونکہ میری کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے لیے صرف اور صرف مفید اور دلچسپ معلومات لاؤں۔ آج میں ایک ایسے موضوع پر بات کرنے جا رہا ہوں جو ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے، اور خاص طور پر اُن بہادر سیکیورٹی گارڈز کے لیے، جو دن رات ہماری حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ان کی ڈیوٹی کے دوران عام شہریوں کی طرف سے کیسی کیسی شکایات کا سامنا انہیں کرنا پڑتا ہے؟ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ سیکیورٹی گارڈ کی نوکری صرف چوروں یا دہشت گردوں سے لڑنا نہیں، بلکہ اکثر انہیں عام لوگوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں، غلط فہمیوں اور کبھی تو غیر ضروری الجھنوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا نازک معاملہ ہے جہاں بہت حکمت اور تحمل سے کام لینا پڑتا ہے، اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہر سیکیورٹی گارڈ کو اس کی مکمل تربیت نہیں دی جاتی کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے۔ بعض اوقات ایک معمولی سی بات کس طرح ایک بڑے تنازعے کی شکل اختیار کر جاتی ہے، یہ دیکھ کر مجھے خود حیرانی ہوتی ہے۔ تو کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ ایسے حالات میں سیکیورٹی گارڈز کو کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ چلیں پھر، آج اسی موضوع پر گہرائی سے نظر ڈالتے ہیں اور میں آپ کو بالکل صحیح معلومات دوں گا!

شور شرابے اور بے جا ہجوم سے نمٹنا: صبر کا امتحان

경비지도사 실무 중 발생한 민원 사례 - **Prompt 1: Community Engagement Security Guard with Children**
    A friendly male security guard, ...

سیکیورٹی گارڈز کا ایک بڑا مسئلہ شور شرابے اور بے جا ہجوم سے نمٹنا ہوتا ہے۔ کبھی بچے کھیلتے ہوئے حد سے تجاوز کر جاتے ہیں، تو کبھی نوجوان دیر رات تک محفلیں جما کر دوسروں کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح ایک سیکیورٹی گارڈ ایک خاندان سے لڑ جھگڑ رہا تھا، صرف اس لیے کہ ان کے بچوں کی گیند بار بار ایک جگہ پر گر رہی تھی۔ یہ ایک عجیب سی صورتحال ہوتی ہے، جہاں گارڈ کو ایک طرف نظم و ضبط برقرار رکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی گارڈ کا کام صرف حفاظت ہے، اس لیے وہ ان کی ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات بڑھ جاتی ہے۔ میرا اپنا ماننا ہے کہ ایسے حالات میں بات چیت کا انداز بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر گارڈ نرمی سے، لیکن پختگی سے اپنی بات سمجھائے تو بہت سے تنازعات سے بچا جا سکتا ہے۔ میں نے ایک جگہ دیکھا کہ گارڈ نے ایک چھوٹے بچے کو پیار سے سمجھایا کہ اس جگہ گیند کھیلنا دوسروں کو تنگ کر سکتا ہے، اور حیرت انگیز طور پر اس بچے نے فوری طور پر مان لیا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی صحیح طریقہ ہے۔

بچوں کو کیسے سنبھالیں؟

بچوں کے معاملے میں سیکیورٹی گارڈز کو خاص حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ انہیں ڈرانے دھمکانے کے بجائے پیار اور نرمی سے سمجھانا چاہیے۔ یاد رکھیں، بچے خوف کے بجائے محبت کو زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ میرے ایک دوست جو سیکیورٹی کے شعبے میں ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ وہ اکثر بچوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ ان کے کھیلنے سے دوسروں کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے، اور اکثر یہ طریقہ کام آ جاتا ہے۔

نوجوانوں کے ہجوم سے نمٹنا

نوجوانوں کے ہجوم کو کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر وہ رات گئے تک شور شرابہ کر رہے ہوں۔ ایسے میں گارڈ کو چاہیے کہ وہ اکیلے جانے کے بجائے ایک ساتھی کے ساتھ جائیں اور انہیں قانون کی حدود میں رہنے کی تلقین کریں۔ اگر بات نہ بنے تو اعلیٰ افسران کو مطلع کرنا ہی بہتر آپشن ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے نوجوان کسی قسم کے جھگڑے میں پڑنے سے بچتے ہیں، اگر انہیں اچھے انداز سے سمجھایا جائے۔

پارکنگ کے مسائل اور ڈرائیورز کی بے صبری: ہر روز کا جھگڑا

پارکنگ کا مسئلہ آج کل ہر جگہ ایک بڑا سر درد بنا ہوا ہے، اور ہمارے سیکیورٹی گارڈز کو اس کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنی کار کو ایک مال میں پارک کرنے کی کوشش کی تو ایک گارڈ نے مجھے ایک ایسی جگہ جانے کا اشارہ کیا جہاں کوئی جگہ ہی نہیں تھی۔ جب میں نے اس سے کہا کہ یہاں تو جگہ نہیں ہے، تو وہ بس غصے سے میری طرف دیکھنے لگا۔ ڈرائیور حضرات بھی جلدی میں ہوتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ سیکیورٹی گارڈ انہیں جان بوجھ کر تنگ کر رہے ہیں۔ گارڈ کا کام صرف گاڑی پارک کروانا نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کوئی غلط پارکنگ نہ کرے۔ لیکن لوگ اکثر اس چیز کو سمجھ نہیں پاتے اور فوری طور پر غصے میں آ جاتے ہیں۔ میں نے ایک سیکیورٹی گارڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ “ہمیں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا ڈراما دیکھنا پڑتا ہے، کبھی کوئی غلط جگہ پر گاڑی کھڑی کر دیتا ہے تو کبھی کوئی پارکنگ کی فیس دینے پر جھگڑا شروع کر دیتا ہے۔” یہ صورتحال واقعی قابلِ افسوس ہے۔ گارڈز کو یہ تربیت دینی چاہیے کہ وہ کیسے کشیدگی کو کم کر سکتے ہیں اور ڈرائیورز کو بھی صبر سے کام لینا چاہیے۔

غلط پارکنگ کا حل

غلط پارکنگ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے گارڈز کو واضح اشارے اور ہدایات استعمال کرنی چاہئیں، اور اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو نرمی سے اسے سمجھائیں کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا اور مناسب جگہ کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے۔

فیس ادائیگی کے تنازعات

پارکنگ فیس کی ادائیگی پر ہونے والے تنازعات سے بچنے کے لیے، سیکیورٹی گارڈز کو چاہیے کہ وہ رقم کے بارے میں واضح طور پر آگاہ کریں اور رسید فراہم کریں۔ اگر کوئی جھگڑا کرے تو اسے انتظامیہ کے حوالے کرنا بہتر ہے۔ ذاتی طور پر، میں نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر پہلے ہی سب کچھ واضح ہو تو جھگڑے کی نوبت کم آتی ہے۔

Advertisement

علاقے میں داخلے پر سخت پوچھ گچھ: غلط فہمیاں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟

کسی بھی بند علاقے، عمارت یا کمیونٹی میں داخل ہوتے وقت سیکیورٹی گارڈز کی پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ان کی ڈیوٹی کا حصہ ہے تاکہ علاقے کو محفوظ رکھا جا سکے۔ لیکن اکثر لوگ اسے اپنی ذاتی توہین سمجھ لیتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ گارڈ ان پر شک کر رہا ہے۔ میں ایک دفعہ ایک عمارت میں داخل ہو رہا تھا اور گارڈ نے مجھ سے میرے وزٹ کی وجہ اور رابطے کی تفصیلات مانگیں۔ مجھے لگا کہ یہ ایک غیر ضروری پوچھ گچھ ہے، لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ وہ صرف اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا۔ گارڈ کو بھی یہ تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ کس طرح مہذب طریقے سے اور مکمل معلومات فراہم کرتے ہوئے پوچھ گچھ کرے تاکہ شہری غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ کئی بار گارڈز خود بھی بدتمیزی کر بیٹھتے ہیں جس سے معاملہ مزید خراب ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں، جب بھی گارڈ کسی سے پوچھ گچھ کرے تو اسے یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ یہ حفاظت کے لیے ضروری ہے اور ذاتی نہیں۔

مہمانوں سے نمٹنے کا صحیح طریقہ

مہمانوں سے نمٹتے وقت سیکیورٹی گارڈز کو انتہائی پیشہ ورانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے، نرمی سے بات کرنی چاہیے، اور انہیں یہ بتانا چاہیے کہ پوچھ گچھ ان کی اور علاقے کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

شناختی کارڈ کی تصدیق

شناختی کارڈ کی تصدیق ایک حساس معاملہ ہے، گارڈ کو چاہیے کہ وہ کارڈ کو صرف تصدیق کے لیے دیکھے اور اس کی نقل کرنے یا اسے غیر ضروری طور پر اپنے پاس رکھنے سے گریز کرے۔

بچوں اور نوجوانوں سے متعلق شکایات: والدین کا غصہ

بچوں اور نوجوانوں سے متعلق شکایات بھی سیکیورٹی گارڈز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتی ہیں۔ کبھی کوئی بچہ کھیل کے دوران کسی کو چوٹ پہنچا دیتا ہے، تو کبھی نوجوان لڑکے آپس میں جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے میں والدین اکثر سیکیورٹی گارڈز کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے نظر کیوں نہیں رکھی یا ان کے بچوں کو روکا کیوں نہیں۔ میرے ایک دوست جو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں سیکیورٹی سپروائزر ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انہیں ایک بار ایک بچے کے والدین نے بہت کچھ سنایا تھا جب ان کا بچہ کھیلتے ہوئے گر کر زخمی ہو گیا تھا۔ والدین کا غصہ اکثر غیر منطقی ہوتا ہے اور گارڈ کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں گارڈ کو بہت صبر اور تحمل سے کام لینا پڑتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ والدین کو صورتحال سمجھائیں اور اگر ممکن ہو تو بیچ بچاؤ کی کوشش کریں، بجائے اس کے کہ خود بھی غصے میں آ جائیں۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ جب گارڈز خود بھی غصے کا اظہار کرتے ہیں تو معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے ہر حالت میں تحمل اور نرمی ہی بہترین ہتھیار ہے۔

کھیل کے میدانوں میں حفاظت

کھیل کے میدانوں میں سیکیورٹی گارڈز کو بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور اگر کوئی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہو تو اسے فوری طور پر روکنا چاہیے۔

تین سے بچنے کے طریقے

بچوں اور نوجوانوں کے درمیان جھگڑوں سے بچنے کے لیے گارڈز کو چاہیے کہ وہ فعال کردار ادا کریں اور چھوٹی موٹی باتوں پر فوری مداخلت کریں تاکہ بات بڑھے نہیں۔ میرے خیال میں، پیشگی اقدامات تنازعات کو روکنے میں سب سے اہم ہیں۔

Advertisement

مالیاتی معاملات میں الجھنیں اور ادائیگی کے مسائل: حساب کتاب کی پیچیدگیاں

경비지도사 실무 중 발생한 민원 사례 - **Prompt 2: Efficient Parking Guidance by a Female Security Guard**
    A professional female securi...

بہت سی جگہوں پر سیکیورٹی گارڈز کو مالیاتی معاملات میں بھی الجھنا پڑتا ہے۔ یہ خاص طور پر وہاں ہوتا ہے جہاں انہیں کسی قسم کی فیس، ٹکٹ یا بل کی وصولی کا کام بھی سونپا جاتا ہے۔ لوگ اکثر فیس کی رقم پر سوال اٹھاتے ہیں، ڈسکاؤنٹ مانگتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے ہی ادائیگی کر دی ہے۔ میں نے ایک بار ایک پارکنگ میں دیکھا کہ ایک صاحب پارکنگ کی فیس ادا کرنے سے انکار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ “میں تو صرف پانچ منٹ کے لیے آیا تھا، اس کی کیا فیس؟” گارڈ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ نہیں مان رہا تھا۔ ایسے حالات میں گارڈ کو نہ صرف سختی سے ڈیوٹی کرنی ہوتی ہے بلکہ حساب کتاب کے معاملات میں بھی واضح ہونا پڑتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ گارڈز کو مالیاتی ٹرانزیکشنز کے لیے مناسب تربیت ملنی چاہیے اور انہیں واضح ہدایات دی جانی چاہئیں کہ ایسی صورتحال میں کیا کرنا ہے۔ رسیدوں کا استعمال اور ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ رکھنا بہت ضروری ہے۔

فیس وصولی کے اصول

فیس وصولی کے دوران گارڈز کو چاہیے کہ وہ واضح اصولوں پر عمل کریں اور ہمیشہ رسید فراہم کریں۔ کسی بھی قسم کے تنازعے کی صورت میں انتظامیہ کو مطلع کرنا چاہیے۔

ڈیجیٹل ادائیگی کے حل

آج کے دور میں ڈیجیٹل ادائیگی کے طریقے بھی رائج ہیں، گارڈز کو ان طریقوں سے بھی واقف ہونا چاہیے تاکہ شہریوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ یہ تنازعات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

پالتو جانوروں کے مالکان اور صفائی ستھرائی کے تنازعات: بدبو اور گندگی کا مسئلہ

پالتو جانوروں کے مالکان کے ساتھ بھی سیکیورٹی گارڈز کو اکثر تنازعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کوئی اپنے کتے کو ایسی جگہ لے جاتا ہے جہاں پالتو جانوروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے، تو کبھی کوئی اپنے جانور کی گندگی صاف نہیں کرتا۔ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ ایک خاتون اپنے کتے کے ساتھ ایک شاپنگ مال میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی اور سیکیورٹی گارڈ اسے روک رہا تھا۔ خاتون بہت غصے میں تھی اور کہہ رہی تھی کہ “یہ میرا بچہ ہے، اسے میں کہیں بھی لے جا سکتی ہوں!” گارڈ کو ان قوانین پر عمل کروانا ہوتا ہے جو معاشرے کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن جانوروں کے مالکان اکثر اپنے جذبات کی وجہ سے ان قوانین کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا حساس مسئلہ ہے جہاں گارڈ کو بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ اگر گارڈ نرمی سے قوانین کی وضاحت کرے اور اس کے پیچھے کی منطق سمجھائے تو لوگ اکثر مان جاتے ہیں۔

پالتو جانوروں کے قواعد

سیکیورٹی گارڈز کو پالتو جانوروں سے متعلق قوانین کو اچھی طرح جاننا چاہیے اور انہیں نرمی سے لیکن پختگی سے نافذ کرنا چاہیے۔

صفائی ستھرائی کی اہمیت

پالتو جانوروں کی صفائی ستھرائی کے حوالے سے گارڈز کو مالکان کو آگاہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے جانوروں کی گندگی کو فوری طور پر صاف کریں۔ یہ نہ صرف ماحول کو صاف رکھتا ہے بلکہ تنازعات کو بھی کم کرتا ہے۔

Advertisement

رات کی گشت اور شہریوں کی ذاتی آزادی: حساسیت کا تقاضا

رات کی گشت کے دوران سیکیورٹی گارڈز کو اکثر ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں شہریوں کی ذاتی آزادی اور سیکیورٹی کے تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کوئی جوڑا پارک میں بیٹھا ہوتا ہے، تو کبھی کوئی شخص دیر رات تک کسی نامعلوم جگہ پر گھوم رہا ہوتا ہے۔ گارڈز کا کام ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی پر نظر رکھیں، لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں شہریوں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی سے بھی بچنا ہوتا ہے۔ میں نے ایک بار ایک گارڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ “ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کون مشکوک ہے اور کون بس اپنی زندگی گزار رہا ہے۔” یہ ایک نازک معاملہ ہوتا ہے جہاں گارڈز کو بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ صرف اس صورت میں مداخلت کریں جب کوئی حقیقی خطرہ ہو یا کوئی قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ غیر ضروری مداخلت سے شہریوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور سیکیورٹی گارڈز کے خلاف شکایات بڑھ جاتی ہیں۔ میرے خیال میں، بہترین گارڈ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو محفوظ محسوس کرائے، نہ کہ خوفزدہ۔

مشکوک سرگرمیوں کی پہچان

سیکیورٹی گارڈز کو مشکوک سرگرمیوں کی پہچان کی تربیت ملنی چاہیے تاکہ وہ غیر ضروری مداخلت سے بچ سکیں۔ انہیں حالات کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔

شہریوں کے حقوق کا احترام

گارڈز کو ہمیشہ شہریوں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے اور ان کی ذاتی آزادی میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ سیکیورٹی اور اعتماد کا رشتہ قائم کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

شکایت کی قسم عام ردعمل (شہری) بہترین ردعمل (سیکیورٹی گارڈ) نتیجہ
پارکنگ غصہ، بحث، عدم تعاون نرمی سے رہنمائی، واضح اشارے تنازع میں کمی، بہتر ٹریفک فلو
شور شرابہ انکار، جارحانہ رویہ وجہ سمجھانا، تعاون کی درخواست نظم و ضبط کا قیام، سکون
داخلہ پر پوچھ گچھ توہین محسوس کرنا، شکوک و شبہات مقصد کی وضاحت، پیشہ ورانہ رویہ اعتماد میں اضافہ، سیکیورٹی کی پختگی
پالتو جانور جذباتی ردعمل، قوانین سے انکار قوانین کی وضاحت، متبادل پیشکش صفائی، قواعد کی پاسداری
مالیاتی معاملات فیس پر سوال، انکار واضح معلومات، رسید کی فراہمی شفافیت، مالیاتی تنازعات میں کمی

글을 마치며

تو میرے پیارے دوستو، آج ہم نے سیکیورٹی گارڈز کی ان روزمرہ کی مشکلات پر گہرائی سے بات کی جن کا انہیں ہم جیسے عام شہریوں کی طرف سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ آپ کو یہ بتاؤں کہ یہ نوکری کتنی صبر آزما اور نازک ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ گفتگو آپ کے لیے آنکھیں کھولنے والی ثابت ہوگی اور اب آپ بھی ان بہادر لوگوں کو مزید سمجھنے کی کوشش کریں گے جو دن رات ہماری حفاظت میں لگے ہیں۔ یہ سوچ کر ہی دل نرم پڑ جاتا ہے کہ وہ کس طرح ہر مشکل صورتحال میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ یاد رکھیں، احترام اور تعاون ہی سب سے بڑی طاقت ہے، جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے اور ہمارے معاشرے کو مزید پرامن بناتی ہے۔ آئیے، آج سے ہی ہم سب سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ زیادہ ہمدردی اور احترام کا مظاہرہ کرنے کا عزم کریں!

Advertisement

알아두면 쓸모 있는 정보

1. جب بھی آپ کسی سیکیورٹی گارڈ سے بات کریں تو نرمی اور احترام سے پیش آئیں۔ یاد رکھیں، وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور ان کا بنیادی مقصد ہماری اور ہمارے آس پاس کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔ ایک چھوٹی سی مسکراہٹ یا شکریہ کا لفظ ان کا دن بنا سکتا ہے۔

2. پارکنگ یا کسی بھی اصول کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اس کا سیکیورٹی گارڈ اور دوسروں پر کیا اثر پڑے گا۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں، کیونکہ ہماری چھوٹی سی لاپرواہی بہت بڑے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

3. اگر آپ کو کسی گارڈ کی کارکردگی سے کوئی شکایت ہے تو براہ راست اس سے جھگڑنے کے بجائے اس کی انتظامیہ یا سپروائزر سے رابطہ کریں۔ اس سے مسئلہ بہتر اور پیشہ ورانہ طریقے سے حل ہو سکتا ہے، اور غیر ضروری تنازعات سے بچا جا سکتا ہے۔

4. پالتو جانوروں کے ساتھ عوامی جگہوں پر جاتے وقت، وہاں کے قوانین کا احترام کریں اور اپنے جانور کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ یہ دوسروں کے لیے بھی آسانی پیدا کرے گا اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں مدد دے گا۔ ذاتی طور پر، میں نے دیکھا ہے کہ صفائی کا خیال نہ رکھنے پر اکثر جھگڑے ہوتے ہیں۔

5. سیکیورٹی گارڈز کو بھی وقتاً فوقتاً تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ شہریوں کے ساتھ بہتر طریقے سے پیش آ سکیں اور تنازعات کو حکمت سے حل کر سکیں۔ بطور معاشرہ، ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ان کی بہترین تربیت ہم سب کے لیے فائدہ مند ہے۔

중요 사항 정리

آج کی ہماری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ سیکیورٹی گارڈز کی نوکری صرف طاقت کا استعمال نہیں بلکہ حکمت، صبر اور گہری پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا کرتی ہے۔ انہیں شور شرابے، بے جا ہجوم، پارکنگ کے مسائل، داخلی پوچھ گچھ، بچوں سے متعلق شکایات، مالیاتی الجھنوں اور پالتو جانوروں کے تنازعات سے لے کر رات کی گشت تک، ہر روز مختلف چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ سب کرتے ہوئے وہ اپنے فرائض کو نبھاتے ہیں، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم بطور شہری ان کے ساتھ تعاون کریں اور ان کی مشکلات کو سمجھیں۔ میرا ماننا ہے کہ باہمی احترام اور افہام و تفہیم ہی ایک پرامن اور محفوظ معاشرے کی بنیاد ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کو سمجھیں گے اور ایک دوسرے کے کام کی قدر کریں گے، تب ہی ہم سب کے لیے ایک بہتر ماحول قائم کر سکتے ہیں۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: سیکیورٹی گارڈز کو عام شہریوں کی طرف سے سب سے زیادہ کن قسم کی شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

ج: اوہ، یہ تو ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ میرے تجربے کے مطابق، سیکیورٹی گارڈز کو سب سے زیادہ شکایتیں اس وقت ملتی ہیں جب وہ ڈیوٹی کے قواعد و ضوابط پر عمل کروا رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پارکنگ کے حوالے سے سختی کرنا، کسی خاص علاقے میں داخلے سے روکنا یا پھر شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ کرنا۔ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی گارڈ انہیں جان بوجھ کر تنگ کر رہا ہے، حالانکہ وہ بیچارہ تو اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ میں ایک پلازے میں تھا جہاں سیکیورٹی گارڈ نے ایک صاحب کو غلط جگہ پر گاڑی پارک کرنے سے روکا، تو وہ صاحب غصے میں لال پیلے ہو گئے اور گارڈ کو گالیاں تک دے ڈالیں۔ یہ دیکھ کر میرا دل دکھا کہ ایک شخص جو ہماری حفاظت کے لیے کھڑا ہے، اسے ایسی بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اکثر لوگ سیکیورٹی گارڈ کی باتوں کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور فوری طور پر انہیں شکایت کرنے کی دھمکی دینے لگتے ہیں۔ کبھی کبھار تو یہ شکایات محض ذاتی انا کی وجہ سے ہوتی ہیں نہ کہ کسی حقیقی مسئلے کی۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گارڈ صرف اپنے فرائض انجام دے رہا ہوتا ہے اور اس کی عزت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔

س: سیکیورٹی گارڈز ایسی شکایات سے کیسے نمٹیں تاکہ صورتحال خراب نہ ہو؟

ج: یہ ایک بہت اہم سوال ہے، کیونکہ اس صورتحال کو ہینڈل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ میرے ذاتی خیال میں، سب سے پہلے تو سیکیورٹی گارڈ کو صبر اور تحمل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل، خاص طور پر جب کوئی آپ پر بلاوجہ غصہ کر رہا ہو۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر گارڈ پرسکون رہے اور مسکراتے ہوئے بات کرے تو آدھا مسئلہ تو وہیں حل ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سیکیورٹی گارڈ نے مجھے بتایا تھا کہ جب کوئی ان پر غصہ کرے تو وہ پہلے تو ان کی بات پوری سنتے ہیں، پھر انہیں انتہائی نرمی سے سمجھاتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کی اپنی حفاظت اور سکیورٹی کے لیے ہے۔ اگر پھر بھی بات نہ بنے تو وہ اپنے سپروائزر کو مطلع کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ خود اس جھگڑے میں پڑیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال نہ کریں اور لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ ان کے دشمن نہیں بلکہ محافظ ہیں۔ ایک اور ٹپ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ صورتحال کو دستاویزی شکل دیں، جیسے کہ کیمرے کی ریکارڈنگ یا کسی عینی شاہد کا بیان، تاکہ اگر بات اوپر تک جائے تو ان کے پاس ثبوت موجود ہو۔

س: ایسی شکایات کے نتیجے میں سیکیورٹی گارڈز کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے؟

ج: ہائے، یہ سوال سن کر مجھے واقعی دکھ ہوتا ہے کیونکہ اکثر ان بیچارے گارڈز کو بلاوجہ کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک معمولی سی جھوٹی شکایت کی وجہ سے سیکیورٹی گارڈ کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، یا پھر ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ کئی بار تو انہیں ذہنی دباؤ اور ہراسمنٹ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی کارکردگی اور ذہنی صحت دونوں متاثر ہوتی ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر افسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ ہماری سیکیورٹی کے لیے اپنی نیندیں قربان کرتے ہیں، انہیں ہی اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ ہم ان کی مدد ایسے کر سکتے ہیں کہ جب ہم کسی سیکیورٹی گارڈ کو ڈیوٹی پر دیکھیں، تو انہیں دیکھ کر مسکرائیں، ان کا شکریہ ادا کریں اور اگر وہ کوئی ہدایت دے رہے ہوں تو اسے توجہ سے سنیں اور اس پر عمل کریں۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ ہماری طرف سے تھوڑی سی عزت اور مثبت رویہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انہیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کی محنت رائیگاں نہیں جا رہی۔ اگر کبھی کوئی غلط فہمی ہو بھی جائے تو لڑائی جھگڑے کے بجائے بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ بھی انسان ہیں اور ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ آخر کار، یہ سب ہمارے ہی لوگ ہیں اور ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور عزت سے پیش آنا چاہیے!

📚 حوالہ جات

Advertisement